مقدمہ

ہندوستان میں ترجمے کا مختلف النوع تاریخ رہا ہے۔ شروعاتی ترجموں کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنسکریت، پراکریت اور پالی اور ابھرتی ہوئی علاقائی زبانوں کے درمیان ہوا ہے اور انہیں زبانوں کا ترجمہ عربی اور فارسی میں بھی ہوا ہے۔ آٹھویں اور انیسویں صدی کے درمیان ہندوستانی داستان اور لسانی متون جیسے پنچتنتر، اشٹانگ ہِریدے، ارتھ شاستر، ہِتوپدیش، یوگسُتر، راماین، مہابھارت اور بھگوت گیتا کا ترجمہ عربی میں ہوا۔ ان دنوں ہندوستانی اور فارسی متون کے مابیں بہت زیادہ تبادلہ ہوا۔ بھکتی تحریک کے زمانے میں جب سنسکریت متون، خاص کر بھگوت گیتا اور اپنیشد دوسری ہندوستانی زبانوں کے ربط میں آئیں تو نتیجتاً بڑی بڑی بھاشا متون، جیسے مراٹھی صوفی (سَنت) شاعر گیانیشور کے ذریعے کیا گیا گیتا کا ترجمہ گیانیشوری اور مختلف زبانوں کے صوفی شاعروں کے ذریعے کئے گئے رزمیہ نظموں کے متعدد آزاد ترجمے، خاص کر راماین اور مہابھارت جیسی متون وجود میں آئیں۔ مثال کے طور پر آپ پَمپا، کَنبر، ملاّ، اَجھوتھاچھن، اِکناتھ، بلرام داس، مادھو کَندلی یا کِریتّی باس کے راماین کی مطابقت پذیری کو دیکھ سکتے ہیں۔

نوآبادیاتی دور میں یوروپی اور ہندوستانی زبانوں خاص کر سنسکریت کے مابین ترجمے کے میدان میں فوری کوشش کا مشاہدہ ہوا۔ تب ہندوستانی زبانوں اور جرمن، فرانسیسی، ایٹالیائی، ہسپانوی زبانوں کے درمیان لین دین ہوے، انگریزی کو اس کے برتر مقام کی وجہ سے امتیازی حیثیت کا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا استعمال نوآبادیاتی حکمراں کیا کرتے تھے۔ انگریزی میں برطانوی دور کا ترجمہ ولیم جانز کے ذریعے کیا گیا کالی داس کے اَبھیجنا شَکُنتلم میں اوج پر پہنچا۔ ایک متن کی حیثیت سے شَکُنتلم اب تمدن ہند کی سطوت کا ایک علامتِ معیار اور ہندوستانی شعور میں ایک عمدہ متون کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ اس بات کی توضیح کرتا ہے کہ انیسویں صدی میں کس طرح اس کا ترجمہ دس سے زیادہ ہندوستانی زبانوں میں کی گئی۔ ترجمہ کے میدان میں برطانوی (نوآبادیاتی) کوششیں مستشرق افکار پر مبنی اور نئے حکمرانوں کے لئے سمجھ پیدا کرنے، تعارف کرانے، درجہ بندی کرنے اور ہندوستان پر گرفت حاصل کرنے کی غرض سے متعین کی گئی تھیں۔ وے لوگ اپنے طرز کا ہندوستان پیدا کئے جبکہ انگریزی میں متون کے ہندوستانی مترجمان اس کی توسیع، تصحیح اور تجدیدِ نظر کرنا چاہتے تھے اور کبھی کبھی وے لوگ ایک مکمل مبارزت کے سہارے برطانوی فھم و ادراک کا اعتراض کرتے تھے جن کی لڑائی معاصر متون کے بجائے قدیم متون پر تھی۔ راجا رام موہن رائے کے ذریعے کیا گیا سنکر کے ویدانت اور کین اور اِسواسیہ اُپنیشد کا ترجمہ، ہندوستانی دانشوروں کے ذریعے ہندوستانی متون کا انگریزی ترجمہ میں پہلی ہندوستانی مداخلت تھی۔ اس کا تعاقب آر۔ سی۔ دت کے رگ وید، راماین، مہابھارت اور چند کلاسیکی سنسکریت ڈراموں کے ترجمے سے کیا گیا۔ ان ترجموں کا مطلب مطیع اور سست ہندوستانیوں کے رومانی اور افادی تصور کا اعتراض کرنا تھا۔ مثال کے طور پر قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد کئی لوگ جیسے دینا بندھو، میتر، اوربِندو اور رابِندر ناتھ ٹیگورکے ذریعے کئے گئے ترجموں کا انبار آ پہنچا۔ تقریبا اسی زمانے میں ہندوستانی زبانوں کے درمیان بھی ترجمے کا آغاز ہوا، گر چہ بہت محدود طریقے سے کیا گیا۔

مگر سچائی یہ ہے کہ اب بھی ہندوستان میں زیادہ تر ادیب انگریزی میں دسترس سے خارج تھے، اور ان طبقوں کی حقیقی تفویضی اختیار صرف اہم ادبی اور نیز علومی متون کا ہندوستانی زبانوں میں ترجموں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ یہاں ترجمے سے متعلق گاندھی جی کا نظریہ مناسب ہو سکتا ہے: "مین انگریزی کو بین الاقوامی تجارت اور کاروبار کے لئے معقول سمجھتا ہوں اور اس لئے یہ لازمی ہے کہ اسے صرف چند لوگ ہی سیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور (انگریزی زبان میں) مہارت حاصل کرنے کے لئے میں ان لوگوں کی ہمت افزائی کرنا پسند کروں گا اور ان لوگوں سے مقامی زبان میں انگریزی کے شاہکاروں کا ترجمہ کرنے کی امید کروں گا۔" یہاں تک کہ وہ یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ انگریزی کو تعلیم کے وسیلے کی حیثیت سے اختیار کرنا ہندوستانی زبانوں کی ترقی کو روک سکتا تھا۔

جیسا کہ ایل۔ ایم۔ خوب چندانی نشاندہی کرتے ہیں، قبل از نوآبادیاتی ہندوستان میں تعلیمی نظام مکتب اور پاٹھشالا کے ذریعے انجام پا رہا تھا، اسکولی تعلیم کو ایک ابتدائی معاشرتی و اشتراکی گنجائش کی حیثیت سے سمجھا جاتا تھا اور لسانی مہارتوں کا ایک سلسلۂ مراتب بنایا جاتا تھا جس نے مقامی بولیوں سے لیکر غیر عامیانہ سبک کے مختلف اقسام کے باہمی قابل فہم بولیوں کا ایک سلسلہ فروغ دیا۔ متعدد فعلی رجحان کی زبانیں اور رسم الخطیں سیکھنے والوں کو عمدہ اور رواں لسانی فن پاروں سے آراستہ کیا۔ ہندوستان کے روایتی لسانی مختلف النوعیت سے بے چین نوآبادیاتی حکمرانوں نے انگریزی اور بھاشا کے درمیان تضاد پیدا کر کے ہندوستانی تعلیم میں توحیدی حلوں کی تجویز پیش کی۔ ہندوستانی تعلیم پر میکاؤلے کا مسودہ (۱۸۳۵) اور اس کے اجدادوں کے کام نے ہندوستانی زبانوں کو نظر انداز کر دیا۔ مابعد نوآبادیاتی دور میں تعلیم کے وسیلے کی حیثیت سے مادری زبان کے استعمال پر بڑھتی ہوی تاکید کی شہادت ملتی ہے اور یونیسکو(UNESCO) کی سفارش کہ نفسیاتی، سماجی اور تعلیمی طور پر ایک بچہ اپنے مادری زبان کے سہارے زیادہ بہتر اور جلدی سیکھتا ہے ، اسے زبان کی منصوبہ بندی کرنے والے بہت سے صاحبِ اختیار لوگوں نے نقل قول کیا تھا۔

اس لئے سماج میں موجود مختلف زبانوں کے لئے ہمارے سماج اور ہمارے اسکول دونوں میں ہمیں فضا تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف تبھی ممکن ہوگا جب کافی ادبی اور علومی متون کے ترجمے استادوں کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو بھی دستیاب ہوں۔ اور، عمودی طور پر مغرب کے نام کے 'معطی' زبانوں سے علوم پر مبنی متون کو لانے کے بجائے افقی طور پر ایسے متون کا ترجمہ ایک ہندوستانی زبان سے دوسرے ہندوستانی زبان میں بھی اہم ہے (سنگھ ۱۹۹۰)۔
یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ یہ جانکاری ہندوستان میں عام عورتوں اور مردوں کو بھی دستیاب ہونے چاہیئے جو اپنی مادری زبان کے ذریعے سب سے اعلی جانکاری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہی وہ عام بنیاد و اساسِ بحث ہیں جن سے قومی ترجمہ مشن کا تصور ظہور میں آیا ہے۔