سیاق و سباق

وزیر اعظم کا بیان
قومی ترجمہ مشن کا تصور بنیادی طور پر ہندوستان کے وزیر اعظم سے آیا جنہوں نے قومی علومی کمیشن کی پہلی اجلاس میں کہا کہ ترجمہ شدہ مواد تک کی رسائی کتنا اہم ہے جس کا مطلب ہوتا ہے بہت سے پیچیدہ میدانوں میں علوم تک بڑھتی ہوی رسائی۔ تعلیم میں لوگوں کی حصّے داری کو تقویت دلانا اور وسعت دلانا اور مسلسل سیکھنا ہی سیاق و سباق تھا۔ جناب سین پترودا کے ذریعے صدارت کی گئی کمیشن نے ہندوستان میں تعلیم کی غرض سے ترجمے کے اسباب کو ترقی دلانے کے لئے ایک علیحدہ ادارے یا مشن کے قائم کرنے کی فوری ضرورت کا احساس کیا۔

سیاق و سباق
جبکہ یہ سچ ہے کہ ترجمہ ایک مسلسل جریانِ عمل ہے، اس مخصوص میدان میں معنی خیز عوامی مداخلت کی ضرورت بنیادی طور پر ملک میں ترجمے کی عملی سرگرمی میں نشیب و فراز سے ہوتی ہے – ڈِسیپِلینوں کے ساتھ ساتھ زبان اور خصوصیت، تقسیم اور رسائی کے معاملے میں نشیب و فراز۔ موجودہ اور ابھرتے ہوے مختلف میدان جیسے ادب، خالص سائنس، اطلاقی یا عملی سائنس، سماجی یا معاشرتی علوم، قانون، طب، علوم انتظامیہ، ٹیکنالوجی اور دیگر میدانوں میں ترجمے کی ایک نامعلوم طلب رہی ہے۔

مزید بر آں، ترجمے کے ذریعے جو معلومات دستیاب ہیں وے ناکافی اور بے قرینے کے ہیں۔ ترجمے کی نشر و اشاعت بھی غیر تسلی بخش ہیں کیونکہ خوانندگی کی ہدف بہت زیادہ منتشر اور غیر ہم آہنگ ہے اور ترجمے کی بازاری پہنچ کا شاذ و نادر ہی جائزہ لیا گیا ہے اور یقینی بنایا گیا ہے۔ فقط معیاری ترجمے کی مناسب نشر و اشاعت ہی ایک علامتِ حوالہ پیدا کر سکتا ہے اور اس میدان میں نجی جاری سرگرمی کو مناسب قوت محرکہ فراہم کر سکتی ہے۔ یہی وہ سیاق و سباق ہے جو مشن کے طور پر ایک مقررہ اقدامات کی شکل میں عوامی دخول کا مطالبہ کرتا ہے جو کہ مختلف ڈِسیپِلینوں میں اعلی معیار کے ترجمے کی فراہمی کو کارآمد بنانے کے لئے شخصی پیشقدمیوں کی حوصلہ افزائی کے ایک جریان عمل کا زوردار آغاز کر سکتا ہے۔ تو اس طریقے سے عوام کی خدمت کرنے کے لئے بےروزگار تعلیم یافتہ لوگوں کی ہمت افزائی کر کے ترجمے کی فعالیات بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار بھی پیدا کر سکتا ہے، جب ان لوگوں کو اپنے لئے ایک قابل معاوضہ پیشہ ملےتو۔

یہی وہ آگاہی تھی جس نے پروفیسر جَیَنتی گھوش کے زیر انتظام قومی علومی کمیشن کی تشکیل کے لئے ترغیب دی جو ترجمے کی سرگرمی، اس کی اشاعت اور انتشار میں مشغول لوگ اور مختلف ایجنسیوں کو ایک ساتھ لا سکے۔ گروہِ عملہ میں مناسب سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے، اکادمی کے نمائندے، ماہر لسانیات، مترجماں، ماہر تعلیم، ناشر اور ہندوستان میں ترجمے کی سرگرمیوں سے جڑے دیگر افراد شامل ہیں۔ جیسے ہی ان گروہوں نے فروری ۲۰۰۶ میں دہلی میں اجلاس کا آغاز کیا تو پروفیسر اُدے ناراین سنگھ کے ذریعے اس میدان عمل کے وسیع خاکے تیار کئے گئے۔ مارچ ۶، ۲۰۰۶ میں این ٹی ایم کمیٹی کے ممبر-کنوینر پروفیسر جَیَنتی گھوش نے این کے سی کی شفارش اور کمیشن کی نظر ثانی شدہ تجویز کو آگے بڑھاتے ہوئے نائب چیرمین اور منصوبہ ساز کمیشن کو لکھا۔ اس کے بعد ان گروہوں نے کئی بار ملاقاتیں کیں اور ۱۲، ۱۳ اپریل ۲۰۰۷ میں ہندوستانی زبانوں کا مرکزی ادارہ، میسور میں بڑے پیمانے پر دو دن کا کارگاہ منعقد کیا۔ ۱۹ اپریل ۲۰۰۶ میں منصوبہ ساز کمیشن کے ذریعے نظر ثانی شدہ تجویز پر رائے زنی کی گئی، پانچ تفتیش و استفسار کا ایک مجموعہ کھڑا کرتے ہوئے جس کا جواب دیا گیا تھا، اس کا مراسلہ نمبر P. 11060/2005-Edn کی طرف رجوع کریں۔ اسی اثنا کچھ مفصل تفسیریں مختلف ماہرینِ علومِ سماجیات خاص کر ترقی پذیر سماجوں کے مطالعوں کا مرکز اور دیگر ادارے جیسے تاریخی تحقیق کا ہندوستانی مجلس شوریٰ سے ملیں۔ ان سبھوں نے کئی مدے کھڑا کئے اور تخلیقی مشورے عطا کئے جیسے کہ این ٹی ایم کی تنظیم اور وسعت، جن میں سے کچھ کو اس منصوبے کی مفصل بیان میں شامل کر لئے گئے۔ ۲۱ جون اور ۳ جولائی ۲۰۰۶ کو ترجمے میں مشغول بہت سے اشاعت گھروں کی طرف سے مشورے حاصل ہوئے۔ بعد میں ۳۱ اگست ۲۰۰۶ کو زبانوں اور کتابوں کے فروغ کے لئے ایچ آر ڈی وزارت کے گروہِ عملہ نے بھی اس تجویز کی پشتیبانی کی، منصوبہ ساز کمیشن کے گیارہویں منصوبے کے لئے اس کی سفارشوں کی طرف رجوع کریں۔ اس کے بعد ۱ ستمبر ۲۰۰۶ کو این کے سی کے چیرمین جناب سام پِترودا نے این ٹی ایم کی تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھا، جس کے بعد ایچ آر ڈی وزارت کے ذریعے ایک مفصل تجویز وضع کی گئی۔