نتائج

ایک ملک کی حیثیت سے، ایک پختہ جمہوری حکومت کے طور پر ہندوستان ابھی ہمارے ارتقاء کے ایک پیچیدہ مرحلہ پر معلق ہے، جبکہ یہ ملک اپنی آزادی فکر کی توثیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اپنے مشکلات پر قابو پانے کی اپنی خواہش کی توثیق کر رہی ہے اور ایسے سماجی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے جو اس کے مختلف النوع عوام کے ہم موجودیت کے یقین کی توثیق کرے جو ایک مشترکہ منزل مقصود کے تصور کو شریک کرتا ہے۔ زبانیں ہمارے کثرت الوجود وراثت کی روح ہیں اور کثیر الّسانیت ہماری طرز زندگی ہے۔ ہندوستانی زبانوں کے فروغ کو ہمارے ترقی کے راستے کے ایک لازمی حصہ کی حیثیت سے قوم کے ذریعے ضرور دیکھے جانے چاہیئیں جو اس کے عوام کے جمہوری شرکت کو بڑھائے اور ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہمارے بقاء کی کنجی ہونا ثابت کرے۔ ہماری ثقافت ہمیشہ سے زبان کے مطالعے کی اہمیت کو سمجھا ہے۔ یہاں تک کہ وید کے زمانے میں 'علوم' کے چھہ شاخوں میں سے چار: شِکشا (اس لفظ کا مطلب "علم صوت" لیکن ابھی عام طور پر تعلیم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے)، ویاکَرَن – "قواعد"، نِرُکت – "اشتقاقیات" اور چھَند "علم عروض" زبان سے متعلق تھے۔ ہندوستانی قواعد داں کے ذریعے کیا گیا کام (سنسکریت اور تامل دونوں میں) واقعی اعلی معیار کا تھا اور زبان کی سائنسی مطالعہ کی بنیاد قائم کی تھی۔ بہت سے جدید نظریات ہمارے آبا و اجداد کے کام سے مسلسل بڑا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ تب وہ زمانہ تھا جب ہندوستان سے علوم پر مبنی متون ترجمہ کے ذریعے ایشیا کے مختلف حصوں تک پہنچا۔ یہی وہ آلۂکار ہے جس کا استعمال ہم لوگ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان میں مغربی افکار لانے میں کرتے تھے، اور اُس آخری صدی میں اُس علوم کا حقیقی اچانک اضافہ ہوا۔ مگر ان میں سے جو کچھ بھی ہوا ہے مغرب سے ہمارے ملک میں متون اور علوم کا عمودی اور ایک سیدھ میں بہاؤ ہوا ہے۔ ہم لوگ – بہت سے معاملوں میں اور زیادہ تر ڈِسیپِلینوں میں – اب تک انگریزی پر مبنی متون پڑھا رہے ہیں۔ ہم لوگ ایسے حالات سے سامنا کئے ہیں جہاں ام البلادی مراکز کے باہر لازمی طور پر مقامی زبانوں میں تعلیم دئے جاتے ہیں، گرچہ ان زبانوں میں وسائلی مواد کی دستیابی مشکل ہے۔ انگریزی تجارت اور ابلاغ کی ایک زبان کی حیثیت سے ہو سکتا ہے اب اور پھیلے، لیکن تیسرے درجے کے تعلیم کا ایک لازمی وسیلہ کی حیثیت سے یہ تشویش ناک حد تک رو بہ زوال ہے۔ اس لئے اسکولوں اور کالجوں میں لسانی منتقلی ایک حقیقی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پڑھائے گئے زبانوں اور جن زبانوں کے ذریعے تعلیم دئے جا رہے ہیں کے درمیان ایک بڑا فاصلہ اُبھرتا ہے۔

ترقیاتی سرگرمیوں کا ایک بہت اہم میدان ٹیکنالوجی کے میدان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری زبان اور قواعدی بیانات فطری زبان کے طرز عمل کو مدد کرنے کے لئے علمی ذخیرہ اور ضابطۂکار فراہم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہم لوگ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی دنیا میں زبردست سرعتی اقدام اُٹھا چکے ہیں اور یہ سہولت مشین امدادی ترجمہ کے میدان کی سرگرمیوں میں آنا چاہیئے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ تمام متعلقہ ایجنسیاں سبھی ہندوستانی زبانوں کو ٹیکنالوجی آلے سے جوڑنے کی پوری کوشش کریں گے جو یقینا معاشرے کی تقویت اور ترجمہ کی فعالیت کی تیزرفتاری میں مدد کرے گی۔

زبان انسانی برادری کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہے اور مکان و زمان کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ ہمیں ان قوتوں سے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے جو اور طرح سے سوچتے ہیں اور لسانی تفرقہ یا تصادم آمیز مسائل کھڑے کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہمیں ان سبھوں کو صاف صاف پیغام دینے چاہیئیں کہ ہماری زبانیں وسائل ہیں اور کثیراللسانیت ایک دولت ہے، اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایک انسان ہونے کے ناطے ہمارا منزل مقصود پیچیدہ طور پر ہمارے زبان کی منزل مقصود اور علوم سے جڑی ہے، جسے اور جس کے ذریعے ہم سینچتے ہیں۔ ہمیں ایسی ثقافت تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں ایک زبان سے دوسری زبان میں علوم کا تبادلہ قابل عمل ہو۔ قومی ترجمہ مشن جیسا کہ یہاں تصور کیا گیا ہے علوم پر مبنی تحقیق کے فروغ اور تعلیمی مبادلہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں چوطرفہ لسانی ترقی کے لئے ایک مفید آلۂکار ہو سکتا ہے۔